Muhammad Abbas | Organizer
Muhammad Abbas | Organizer
میرا نام حافظ عباس ہے ۔ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں ۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ زندگی اس نہج پر لے آئے گی کہ میں کسی سے ہیلپ مانگوں گا ۔ میرا ہاتھ ہمیشہ دینے والا رہا ہے ۔ 2014 میں شادی کی ۔ پھر سعودیہ عرب چلا گیا ۔ وہاں الحمداللہ اچھا روزگار کا سبب بن گیا ۔ گھریلو حالات اچھے ہو گئے ۔ میں مکہ مکرمہ میں رہتا تھا ۔ میں وہاں مختلف کام کرتا تھا ۔ خاص طور پر حجاج کرام کیلئے رہائش فراہم کرتا تھا ۔ حجاج کیلئے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کرتا تھا ۔ اس سے اچھا روزگار بن جاتا تھا ۔ پھر کرونا وبا شروع ہو گئی ۔ جس میں میرا سب کچھ تباہ ہو گیا ۔ کرونا پینڈمک کے دوران حجاج کرام کے آنے کا سلسلہ موقوف ہو گیا ۔ عمرہ اور حج ویزہ بند ہو گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تمام رقم ڈوب گئی ۔ حجاج کرام کیلئے پہلے سے کمرے کرایہ پر لے کر رکھتا تھا ۔ مختلف رہائشی ہوٹل میں مکمل انتظام ہوتا تھا ۔ وہ سب سرمایہ ڈوب گیا ۔ ٹرانسپورٹ پہلے سے بک کر کے رکھتا تھا ۔ غرضیہ وہ تمام سرمایہ نقصان میں چلا گیا ۔ جن رہائشی ہوٹل کے سعودی مالکان سے کمرے کرایہ پر لے کر رکھے ہوئے تھے ۔ انہوں نے اڈوانس دی ہوئی رقم واپس کرنے سے انکار کر دیا ۔ اور آگے سے کمرے کرایہ پر لینے کیلئے مزید رقم طلب کی ، جو میں فراہم نا کر سکا ۔ 2022 میں میرا ویزہ ایکسپائر ہو گیا اور بڑی مشکل سے خالی ہاتھ پاکستان لوٹنا پڑا ۔ اور تب سے مصیبتوں اور مشکلات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ۔ پاکستان میں کہیں بھی جاب کیلئے اپلائی کروں تو انٹرویو والے پوچھتے ہیں کہ پہلے کیا کرتے تھے ۔ جونہی میں بتاتا کہ میں نے کافی عرصہ سعودیہ عرب میں گزارا ہے تو لوگ فوراً بدل جاتے ۔ ایکدم جواب دے دیتے ۔ نا جانے کیوں ۔ مارکیٹنگ کی جاب ہو یا سیلز مین کی جاب ہو یا ایئر ٹکٹنگ اینڈ ٹریولز ایجنسی کی جاب ہو ۔ کوئی بھی ہو ، لوگ فوراً منع کر دیتے ہیں ۔ اپنا کاروبار کرنے کیلئے سرمایہ نہیں ہے ۔ میرا ایک بیٹا ہے ۔ وہ سکول میں تیسری کلاس میں پڑھتا ہے ۔ روزگار کا کوئی سلسلہ نہیں ہے ۔ کرایہ کے ایک کمرے میں رہتا ہوں ۔ بیوی اور بیٹا بھی ساتھ رہتا ہے ۔ سکول فیس دینے سے عاجز ہوں ۔ بچے کی کلاس کی کتابیں اور کاپیاں بھی نہیں ہوتیں ۔ میں راولپنڈی شہر میں رہتا ہوں ۔ مزدوری کرتا ہوں ۔ لیکن کچھ خاص کام نہیں ملتا ۔ شدید مالی مشکلات کا شکار ہوں ۔ حتاکہ کھانا کھانے کے پیسے بھی نہیں ہوتے ۔ کہیں کوئی کھانا بانٹ رہا ہوتا ہے تو بھاگ کر جاتا ہوں اور کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ اپنے بیٹے کو کھانا کھلا سکوں ۔ میری صبح بھی کھانا حاصل کرنے کی اذیت سے شروع ہوتی ہے اور رات بھی کھانا حاصل کرنے کی تگ دو پہ ختم ہوتی ہے ۔ میری بیوی ایک سٹور پر سیلز گرل کی نوکری کرتی ہے ۔ جس سے بمشکل جسم جان کا ناطہ جوڑا ہوا ہے ۔ بیوی کی تنخواہ تیس ہزار ہے ۔ اس رقم سے تو زندگی اور بھی مشکل ہو گئی ہے ۔ نا کپڑے ہیں نا جوتے ہیں ۔ سوچتا ہوں کہ اگر مر گیا تو میرے بیٹے کو کھانا کون کھلائے گا ۔ وہ غذائی کمی کا شکار ہو گیا ہے ۔ میری ان تمام باتوں کی باآسانی تصدیق کی جا سکتی ہے ۔ اب اگر کچھ مالی مدد ہو جائے تو زندگی تھوڑی آسان ہو جائے گی ۔ ا
Support us. Donate today.
Here's what's new:
Organizer
Contact
Beneficiary
Your donation's impact matters to us, we hold ourselves accountable.