Munawar Ali | Organizer
Munawar Ali | Organizer
میرا قصور صرف اتنا تھا کہ میں غریب تھا۔
میرے خواب امیروں جیسے تھے، مگر میری جیب ہمیشہ خالی رہی۔ میں پڑھنا چاہتا تھا، آگے بڑھنا چاہتا تھا، مگر میرے حالات نے مجھے کتابوں کے بجائے ذمہ داریوں کا بوجھ تھما دیا۔
جب بچے اسکول جا رہے تھے، میں کام پر جا رہا تھا۔
جب وہ کاپیاں بھر رہے تھے، میں گھر کا چولہا جلانے کی فکر میں تھا۔
ہر دن دل میں ایک ہی سوال تھا:
کیا غریب کا خواب دیکھنا بھی جرم ہوتا ہے؟
میں نے کئی بار کوشش کی، پڑھائی شروع کی، مگر فیس، کتابیں، وردی—سب میرے راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہو گئیں۔ میں ذہین تھا، مگر غربت نے مجھے موقع نہیں دیا۔ لوگوں نے میرے شوق کو مذاق سمجھا اور کہا:
“پہلے پیٹ بھرو، پڑھائی بعد میں کرنا۔”
سب سے زیادہ تکلیف تب ہوئی جب اپنوں نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ جن سے امید تھی، وہی کہنے لگے:
“تم کچھ نہیں بن سکو گے۔”
یہ لفظ کتابوں سے زیادہ بھاری تھے، اور انہوں نے میرے دل پر وہ زخم لگایا جو آج تک نہیں بھرا۔
میں نے ہار نہیں مانی، مگر ہر دن تھوڑا تھوڑا ٹوٹتا گیا۔
رات کو تھکن کے ساتھ سوتا، اور صبح پھر اسی محرومی کے ساتھ جاگتا۔
میرے پاس ڈگری نہیں تھی، مگر دکھ کی تعلیم بہت زیادہ تھی۔
آج بھی جب کسی کو یونیفارم میں دیکھتا ہوں، دل رک سا جاتا ہے۔
سوچتا ہوں، کاش میں بھی پڑھ سکا ہوتا۔
کاش میری غربت میری راہ میں دیوار نہ بنتی۔
مگر پھر بھی…
میں زندہ ہوں۔
میں سانس لے رہا ہوں۔
اور شاید یہی میری سب سے بڑی کامیابی ہے۔
کیونکہ کچھ لوگ خواب پورے کرتے ہیں،
اور کچھ لوگ خوابوں کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں۔
Support us. Donate today.
Here's what's new:
Organizer
Contact
Beneficiary
Your donation's impact matters to us, we hold ourselves accountable.